آئیے ہم اپنے ایمان کی تجدید کریں



دسمبر  2010
دور حاضر کے مسلمان ہر چیز کی ترقی کی خاطر پروانہ وار دوڑ رہا ہے ۔ جس چیز کی ترقی کی طرف وہ دوڑ لگارہا ہے اس کا تعلق صرف دینا ئے فانی سے ہے۔ جب کہ اس کو یہ حقیقت معلوم ہے کہ دنیا کی زندگی بہت مختصر و معمولی ہے۔ جس دن موت کا پنجہ اس کو دھر دبوچے گا اس دن سے اس کی تمام ترقیاں جن کے لئے اس نے اپنی قیمتی عمر کو گنوایا اس کا ساتھ چھوڑ دیں گی۔ اور قبر میں پہنچ کر صرف ایمان  اور  نیک اعمال ہی سے اس کو فائدہ پہنچے گا۔ اس لئے اخروی زندگی کو فراموش کرکے دنیا وی ترقی کے پیچھے بھاگتے رہنا قطعا ًعقل مندی اور دانش مندی کی بات نہیں ۔ اس پہلو کو مفید اور کار آمد بنانےکے لئے  ہم مسلمانوں کو ایمان کی تجدید کرنا ضروری ہے ،کیوں کہ ایمان کا دعویٰ تو ہم کرتے ہیں ،  لیکن اوامر الہٰی اور احکام ربانی میں ہم تقصیر سے کام لیتے ہیں۔قرآن کریم کے حقوق کی ادائیگی اور سنت مصطفوی کی اتباع میں کوتاہی کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں ۔  اس لئے ضروری ہے کہ جو چیز یں ہم سے دانستہ یا نا دانستہ فوت ہو چکے ہیں ان کی تلافی کریں اور جن میں ہم سے تقصیر ہوتی ہے جہاں تک ہوسکے ان کی تکمیل کریں ۔ ساتھ ہی ساتھ ان چیزوں کی اصلاح میں وسعت بھر کوشش کریں جن کو لوگوں نے بدل یا بگاڑ دیا ہے۔ اور لوگوں نے جس بنیا د کو منہدم کردیا ہے اسے از سر نو تعمیر کریں ،تاکہ نئے سرے سے اسلام کی بنیاد سیسہ پلائی ہوئی بنیاد بن جائے۔
مسلمانوں کی ابتر حالت کو دیکھتے ہوئے بلا جھجھک یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ان کو دنیا کی تمام چیزوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ توکل علی اللہ  اور ایسے ایمان کی حاجت ہے جس کو سخت سے سخت آندھی و طوفان متزلزل نہ کر سکے۔ اور نت نئے پروپیگنڈے اسے کمزور نہ کرسکے۔کیوں کہ یہی وہ ایمان ہے جو بازاروں میں بکنے سے بالا تر ہے۔آج ان کو ایسے ایمان کی ضرورت ہے جو خارق عادات کا رنامہ دکھانے کے قابل ہو۔  جسے مال و دولت و جاہ منصب کی طمع کمزورنہ کرسکے ۔
 یہی وہ ایمان ہے جس نے مختلف ادوار میں تاریخ کو بدل کر رکھ دیا ، اور زندگی کے دھارےکو موڑ دیا ۔ یہی وہ ایمان ہے جس نےسخت سے سخت مادیت کے موجوں کے سامنے کوہ گراں بن کر تمام قسم کی آندھیوں کو یکسر خاک میں ملا دیا ۔  نیز بے لگام خواہشات نفسانی کے خلاف سدمآرب کی طرح ڈٹ گیا ، ان حقیقتوں کی مثالوں سے اہل ایمان کی تاریخ لبریز ہے۔جن میں سے صرف ایک مثال پیش کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے سربراہان ممالک کے پاس دعوت ایمان کے خطوط ارسال کرنے کا فیصلہ فرمایا ۔اور اس مقصد سے چھ صحابہ کرام کو عرب و عجم کے بادشاہوں کے پاس بھیجنے کا حتمی فیصلہ فرمایا۔ ان چھ صحابہ میں ایک عبداللہ بن حذافہ تھے جن کوشہنشاہ فارس کسریٰ کی طرف روانہ کیا۔ جہاں کی زبان اور طور وطریقہ سے وہ نا آشنا تھے ۔ وہ تن تنہا پر پیچ اور دشوار گذار راستوں کو طے کرتے ہوئے کسریٰ کے دربار تک پہنچ گئے۔ اور کسریٰ کے پاس جانے کی اجازت طلب کی، تو کسریٰ نے دربار مزین کرایا اور عظماء فارس کو مجلس میں حاضر ہونے کا حکم دیا تو سب حاضر ہوگئے۔ اس کے بعد عبداللہ بن حذافہ کو دربار میں داخل ہونے کی اجازت دی ، تو وہ اپنے پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس داخل ہوئے، لیکن وہ سرکو بلند کئے ہوئے اور ایمان کی عزت و اسلام کی قوت اور نور ایمان کو اپنے دل میں روشن رکھتے ہوئے وصول دربار ہوئے ۔ کسریٰ نے جب انہیں آتے ہوئے دیکھا تو اپنے دربار کے ایک آدمی کو اشارہ سے ان کے ہاتھ سے خط لینے کو کہا، تو اس جانباز مؤمن نے کہا :
ہرگز نہیں، میں کسی کے ہاتھ میں یہ رسالہ نہیں دے سکتا ہوں۔  اور کسریٰ سے مخاطب ہوتے ہوئے یوں گویا ہوئے کہ :اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے حکم دیاکہ میں بدست خود آپ کے ہاتھ میں دوں ۔ اس لئے میں اللہ کے رسول کی خلاف ورزی کسی قیمت پر نہیں کرسکتا۔ توکسریٰ نے اپنے لوگوں سے کہا کہ اسے میرے پاس آنے دو۔ کسریٰ نے اپنے ہاتھ میں خط کو لیا اور ترجمان کو پڑھنےکے لئے  دیا۔جس خط کا آغاز یوں تھا:
”بسم الله الرحمٰن الرحیم. من محمد رسول الله الی کسری عظیم فارس، سلام علی من اتبع الهدی.“
کسریٰ نے محض اتنا ہی سنا تھا کہ اس کے سینہ میں غصہ مشتعل ہوگیا ، اس کا چہرہ سرخ ہوگیا اور اس کی رگ گردن پھول گئی ۔ اس لئے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے نام کا ذکر پہلے کیا۔وہ ترجمان کے ہاتھ سے خط لے کر اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ۔اور خط کے مضمون کو جاننے کی کوشش نہیں کی ۔  بلکہ اس نے یوں کہا کہ وہ (محمد ﷺ ) مجھے اس طرح لکھے گا؟ جبکہ وہ میرا غلام ہے۔
عبداللہ بن حذافہ اپنے رسول ﷺ کے حکم کی تعمیل کرکے بسلامت مدینہ پہنچ گئے۔ اور رسالۂ رسول ﷺ کو پورا نہ پڑھنے اور پھاڑنے کا ذکر کیا ۔  تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ اس کے ملک کو ٹکڑا ٹکڑا کردےگا۔ آپ ﷺ کی یہ پیشین گوئی چند ہی دنوں میں ظاہر ہوگئی۔ جس سے تاریخ پڑھنے والے اچھی طرح واقف ہیں۔
آپ اس مختصر سے واقعہ میں اس بات کو اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے کہ  پھٹے پرانے کپڑے پہن کر جانے والے عبداللہ بن حذافہ  ایمان کی دولت سے مالا مال تھے اس لئے ان کو مرعوب کرنےکے لئے  دربار کو ہیروں و جواہرات سے سجایاگیا ۔لیکن وہاں پہنچ کر وہ ذرہ برابر مرعوب نہیں ہوئے ۔ ہیرے و جواہرات سے سجائے گئے دربار کی اہمیت اس مرد مومن کے نزدیک آب و گِل سے زیادہ حیثیت کا نہیں تھا۔ لیکن آج ایمان کے  دعوے دار لوگ غیروں کی ترقی کو دیکھ کر آنکھیں پھاڑ دیتے ہیں ۔ اور دنیا کی ترقی میں اپنے ایمان کو بالائے طاق رکھ کر پروانہ وار دوڑنے میں مصروف ہیں۔ جائز ترقی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہمارا ایمان خطرہ میں نہ پڑے۔
حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی  کا ایک اور ایمان افروز واقعہ پڑھیئے اور غور کیجئے کہ ایمان میں کتنی طاقت ہوتی ہے۔ ان کایہ واقعہ 16ہجری میں پیش آیا۔ حضرت عمر بن الخطاب  خلیفۂ ثانی نے رومیوں سے لڑنےکے لئے  ایک فوجی دستہ بھیجا جس میں حضرت عبداللہ بن حذافہ بھی تھے۔ عظیمِ روم ،قیصر کو اس مسلم فوج کی آمد کی اطلاع ملی جو مسلم فوج صدق ایمان ، رسوخ عقیدہ اور اپنے نفسوں کو رخیص کرنے میں ممتاز و مشہور تھی۔
قیصر نے اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ اگر مسلمانوں میں سے کوئی پکڑ میں آجائے تو اسے نہ ماریں، بلکہ زندہ و سلامت میرے پاس لے آئیں ۔ اتفاق سے عبداللہ بن حذافہ رومیوں کے قید میں آگئے۔ وہ لوگ انہیں اپنے بادشاہ (قیصر ) کے پاس لے آئے اور کہا کہ یہ محمد ﷺ کے اولین اصحاب میں سے ہے۔
روم کے بادشاہ نے ان کو غور سے دیکھا پھر جلدی سے یوں کہتے ہوئے گویا ہوا کہ میں تم پر ایک معاملہ پیش کروں گا۔
انہوں نے کہا وہ معاملہ کیاہے؟
تو اس نے کہا کہ میں تم پر نصرانیت کی دعوت پیش کررہاہوں تم اسے قبول کرلو۔ اگر تم نے قبول کرلیا تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ اور تمہیں بہترین ٹھکانہ دوں گا۔  تو انہوں  نے خود داری اور زیر کی سے کہا:یہ بہت دور کی بات ہے۔ یقینا مجھ کو موت ہزارگنازیادہ بہتر ہے اس چیز سے جس کی طرف تم مجھے دعوت دے رہے ہو۔
قیصر نے کہا: تم ایک تیز فہم و سمجھ دار آدمی معلوم ہوتے ہو ۔ تم اگر اس بات کو قبول کر لو جو میں تم پر پیش کررہاہوں تو آدھا  ملک روم تم کو دے دوں گا۔
تو بیڑیوں میں جکڑے ہوئے اس قیدی نے مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہا:
اللہ کی قسم اگر تو مجھے اپنی ملکیت کی تمام چیزیں نیز مملکہ ٔعرب کی تمام چیزیں میرے سپرد کردے اس شرط پر کہ چشم زدن کے لئے  محمد ﷺ کے دین سے ہٹ جاؤں توبھی میں ایسا نہیں کر سکتا۔ تو اس نے کہا تب میں تجھے قتل کردوں گا۔
انہوں نے کہا : تم جو بھی چاہو کر و مجھے کوئی پرواہ نہیں۔پھر اس نے انہیں سولی کا حکم دیا اور اپنے تیر اندازوں سے رومی زبان میں کہا کہ اس کے ہاتھوں کے قریب قریب تیر چلاؤ۔ تیر اندازوں نے تیر چلانا شروع کیا۔ اور قیصر ان پر نصرانیت پیش کرتا رہا لیکن وہ انکار کرتے رہے۔
پھر اس نے ان کے پیرکے قریب سے تیر چلانے کا حکم دیا، اور وہ ان پر نصرانیت پیش کرتا رہا لیکن انہوں نے شدت سے انکار کیا۔
اس وقت اس نے تیر اندازوں کو روک کر حکم دیاکہ ان کو صلیب سے نیچے اتاردو۔ پھر اس نے ایک بڑادیگ منگوایا۔ اس میں تیل ڈال دیا گیا۔ اور اس دیگ کو آگ میں چڑھایا گیا یہاں تک کہ وہ کھولنے لگا۔  پھر مسلمان قیدیوں میں سے دو قیدیوں کو لایا گیا۔  اور ان میں سے ایک کو اس ابلتے ہوئے دیگ میں ڈال دیا گیا۔ جس کا گوشت بدن سے الگ ہو کر بھن گیا اور اس کی ہڈیاں گوشت سے عاری ہوگئیں ۔ اسی طرح دوسرے قیدی کے ساتھ بھی کیا۔
اس کے بعد قیصر عبداللہ بن حذافہ  کی طرف ملتفت ہوا۔ اور ان کو نصرانیت کی دعوت دی تو انہوں نے پہلے کے مقابلہ میں کہیں زیادہ شدت سے انکار کیا۔ اس نے یہ سب اس لئے کیا تھا کہ گھبراکر وہ نصرانیت قبول کرلیں گے، لیکن اس کی یہ تدبیر ناکام ہوئی۔ کیوں کہ  اس مرد مومن نے پہلے کے مقابلہ میں کہیں زیادہ سختی سے انکار کیاتھا۔
چنانچہ جب وہ ان سے مایوس ہوا تو ان کو بھی دیگ میں ڈالنے کا حکم دے دیا ۔  جب ان کو دیگ کی طرف لے جایا گیا تو ان کی دونوں آنکھیں اشکبار ہوگئیں ۔ کچھ لوگوں نے آکر قیصر کو بتایا کہ وہ رورہے ہیں۔ اس سے قیصر نے سمجھا کہ شاید وہ گھبراگئے ہیں ۔ پھر ان کو اپنے پاس بلایا ۔جب وہ اس کے سامنے آکر کھڑے ہوئے تو اس نے نصرانیت کی دعوت پیش کی ،لیکن انہوں نے پہلے کے مقابلہ میں کہیں زیادہ سختی سے انکار کردیا۔
تو قیصر نے کہا: تیرا بُرا ہو پھر تم کو کس چیز نے رُلایا ؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ: میں نے اپنے دل میں سوچا اور اپنے آپ سے کہا کہ : تو ا ب آگ میں ڈالاجائے گا اور تیرا نفس ختم ہوجائے گا اس حال میں کہ میں اس بات کا خواہش مند تھا کہ میرے جسم میں جتنے بال ہیں اتنی تعداد میں میری جان ہوتی اور ان تمام جانوں کو اس دیگ میں ایک ایک کرکے ڈالاجاتاتو میرے لئے کتنا اچھاہوتا۔
یہ سن کر وہ سرکش قیصر بے حدمرعوب ہوگیا۔ اور اس نے کہا کہ اگر تم میرے سرکابوسہ لو تو میں تم کو اور دیگر قیدیوں کو چھوڑ دوں گا،  اور ایساہی ہوا۔
یہ مثال پیش کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ ایمان والے کو کسی بھی چیز سے سمجھوتہ کرنا جائز ہی نہیں یعنی ایمان سے سمجھوتہ کا مطلب یہ ہے کہ ایمان سے ہاتھ دھولینا۔
دور حاضر کے ہر اس مسلمان کو تجدید ایمان کی ضرورت ہے ،جس کے اندر نواقض ایمان کی بہتات ہیں۔ ہر اس فرد مسلم کو ایسے یقین کی ضرورت ہے جو شکوک و شبہات کو بادل کی طرح چھانٹ دینے اور ان کی تاریکیوں کو کافور کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔  اور جو ظن و تخمین کے دلدل میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالناچاہتاہو۔
ہاں ، اس ایمان و یقین کا حصول قرآن کریم کی ان آیات پر گہری نظر ڈالنے کے بعد ہی ممکن ہے جو ایمانیات سے متعلق ہیں۔  اور جن آیتوں نے ایمان و یقین سے متمتع ہونے والے گرہوں کی تصویر کشی کی ہے۔ جنہوں نے اس ضمن میں اہم و قابل ستائش رول اداکیا۔ جن کے ہاتھوں سے دنیا والوں نے حیرت انگیز عجائبات وکارنامے دیکھا۔ جنہوں نے ساتوں آسمانوں کی بلندیوں سے رحمتیں اور برکتیں نازل کروایا ۔اور جو ہر میدان میں کامیابیوں سے ہم کنار ہوئے۔  اس ضمن میں قرآن کریم سے بعض نمونہ پیش کرنا بے موقع نہ ہوگا۔
تاریخ پر نظر رکھنے والے اس حقیقت سے نا آشنا نہیں ہیں کہ ایمان و یقین اور ظن و تخمین کے مابین دین اسلام کے روزہ اول ہی سے معرکہ آرائی اور کشمکش کا آغاز ہوا۔ اور یہ معرکہ آرائی ہر زمانہ میں جاری رہی۔ لیکن تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ کامیابی و سرخروئی صرف مومنین و متقین کے حصہ میں آئی۔
واضح رہے کہ قدیم زمانہ میں روم کا ایک ظالم و جابر بادشاہ گذرا ۔  اس کا نام دقیانوس تھا۔  جو اپنے باطل عقیدہ پر سختی سے جما ہواتھا۔  اور اپنی شاہانہ طاقت کے بل بوتے اس عقیدہ کو دوسروں پر بھی تھوپتا تھا ۔ کسی کے اس عقیدہ کو اختیار نہ کرنے پر جبر و زیادتی بھی کرتا تھا۔  لیکن جو لوگ اس کے زمانہ میں صحیح العقیدہ تھے وہ بہت تھوڑے  اور  کمزور تھے۔ انہوں نے ظالم بادشاہ کو برملا جواب دیا تھا :﴿ربنا رب السماوات و الارض لن ندعوا من دونه الها لقد قلنا اذا شططا ﴾ (الکهف:14)  ”ہمارا پرور دگار تو وہی ہے جو آسمان و زمین کا پرور دگار ہے۔ نا ممکن ہے کہ ہم اس کے سوا کسی اور معبود کو پکاریں ۔ اگر ایسا کیا تو ہم نے بہت غلط اور زیادتی کی بات کہی ۔“
 اس چھوٹی سی جماعت نے تقوی کو مضبوطی سے تھام لیا اور پورے عزم و حوصلہ اور بلند ہمتی سے کام لیا۔ جس کے نتیجے میں اللہ نے حق و درستی کی طرف رہنمائی کی۔ اور اس جماعت نے غار میں پناہ لی اور آرام سے سوگئے۔ اور ظالم و جابر بادشاہ کی پہنچ اس جماعت تک نہ ہوسکی ۔ فرمان ربانی ہے :﴿انهم فتیة آمنوا بربهم و زدناهم هدی﴾ (الكهف:13).
آج ہم سب اس بات کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ جن لوگوں کو اللہ نے مال اور جدید ایجادات و انکشافات کی شکل میں منافع سے نوازا وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم بلند درجات پر فائز ہیں ۔اور جو لوگ ان چیزوں میں ان کے درجوں تک نہ پہنچ سکے وہ ان سے کمتر ہیں ۔اور ان کی تہذیب و تمدن ہر دیگر تہذیب و تمدن سے بالا تر ہے ۔لہٰذا وہ اس لائق ہے کہ اس کی نقل اتاری جائے۔ اسے نشست وبرخواست میں اپنایا جائے۔  راتوں کے پروگراموں ، نیز رقص و سرور کی محفلوں میں اسی کو اپنایا جائے۔ کیوں کہ ہماری کہ تہذیب و تمدن ترقی کی چوٹی کو پہنچی ہوئی ہے۔ اس دعوے کے تحت وہ اپنی تہذیب کو مختلف قوموں و امتوں اور عوام الناس کے سامنے پیش کرتے ہیں اور دبے الفاظ میں ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان کی تقلید کریں اور بندروں کی مانند ان  کے ہر قول وفعل کی نقالی کریں۔ جب ان پر ایمان پر مشتمل آیات قرآنی تلاوت کی جاتی ہیں ، اور داعیان اسلام ان پر اللہ ورسول ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کی دعوت پیش کرتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں کہ کیا یہ لوگ (مومنین دعاة ) ہماری ترقی و بلندی کو نہیں دیکھتے ہیں؟ کیا یہ لوگ ہمارے فضاء پر کمند ڈالنے کے کمال کا مشاہدہ نہیں کرتے ہیں؟ ہم تو اس بلند مقام تک پہنچ چکے ہیں جس سے عقلیں حیران ہیں۔ قرآن مجید نے ایسی ہی صورت حال کی تصویر کشی کررکھی ہے: ﴿واذا تتلی علیهم آیاتنا بینات قال الذین کفروا للذین آمنوا ای الفریقین خیر مقاما واحسن ندیا﴾ (مریم:73)  ”جب ان کے سامنے ہماری روشن آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو کافر لوگ مسلمانوں سے کہتے ہیں بتاؤ  ہم دونوں جماعتوں میں سے کس کا مرتبہ زیادہ ہے؟ اور کس کی مجلس شان دار ہے؟
یعنی کفار مکہ قرآنی دعو ت کا مقابلہ فقراء مسلمین اور اغنیاء قریش اور ان کی مجلسوں اور مکانوں کے باہمی موازنے سے کرتے ہیں، کہ مسلمانوں میں بلال ، عمار اور صہیب  جیسے فقیر لوگ تھے، ان کا  مشاورتی مقام  دارأ رقم تھا۔ جب کہ کافروں میں ابوجہل ، نضر بن حارثہ ، عتبہ اور شیبہ وغیرہ جیسے رئیس ، اور عالی شان کو ٹھیوں کے مالک تھے۔ نیز ان کی اجتماع گاہ دارالندوہ تھی جو بہت عمدہ تھی۔ آج کے کفار اور نام نہاد ترقی یافتہ ہونے کے دعوے دار کی تراش و قماش ان کفار مکہ جیسی ہی ہے۔کیوں کہ کفر کی خاصیت ہی یہی ہے۔ اس کے بر خلاف جن لوگوں نے علم  وعمل پر اپنے نفس کو سدھایا اور آیات میں گہرائی و گیرائی سے نظر ڈالا ان کو رب کائنات نے نور ہدایت سے نوازا اور ازلی و ابدی کامیابی کی راہ پر انہیں گامزن کردیا ۔ اوراس کامیابی سے ہم کنار کردیا جس کے مقابلہ میں دنیاوی کامیابی خواہ وہ کتنی بڑی ہی کیوں نہ ہو ایک ذرہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتی۔  ارشاد باری ہے:﴿ویزید الله الذین اهتدوا هدی﴾ (مریم:76)  ”یعنی ہدایت یافتہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت میں بڑھاتا ہے۔“  ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے: ﴿والذین اهتدوا زادهم هدی وآتاهم تقواهم﴾ (محمد:17)یعنی جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں اللہ نے انہیں ہدایت میں مزید بڑھادیا ہے انہیں انہیں پر ہیز گاری عطاء فرمائی ہے۔“
یہ اس شخص کی طرح ہے جو اپنی آنکھ کو جتناہی زیادہ استعمال کرے گا اتنی ہی اس کی بینائی مزید تیز ہوگی۔ ہاتھ جتناہی استعمال کرے گا اتنی ہی اس میں قوت آئے گی۔ عقل کو جتناہی زیادہ کام میں لائے گا فہم و ادراک میں اسی کے بقد ر اضافہ ہوگا۔ لیکن جو لوگ ان اعضاء کو استعمال میں نہیں لائیں گے وہ اتنے ہی معطل اور بیکار ہوں گے۔ (یہ حقیقت تجربہ سے ثابت ہوچکی ہے۔)  نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ حق سمجھنے سے قاصر ہوں گے ۔اور انہیں صراط مستقیم کی طرف راہ نہیں ملے گی۔
یقینا ًکبھی حالات و ظروف اہل ایمان کے لئے  نامساعدہوں گے۔ جس تعلق سے خالق أرض و سماء کا فرمان یوں ہے: ﴿ ام حسبتم ان تدخلوا الجنة ولما یاتكم مثل الذین خلو ا من قبلکم مستهم الباساء والضراء وزلزلوا حتی یقول الرسول والذین آمنوا معه متی نصر الله الا ان نصرالله قریب﴾ (البقرة:214) ”یعنی کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہوکہ جنت میں چلے جاؤ گے ، حالانکہ اب تک تم پروہ حالات نہیں آئے جو تم سے پچھلے لوگوں پر آئے تھے۔ انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہونچیں اور وہ اس قدر جھنجھوڑ ے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کہ مدد کب آئے گی ؟ سن لو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔“
ان تمام سنگین و ناموافق حالات میں ایمان چمکتا اور روشن ہوتا ہے ، جیسے صبح تاریک رات کے بعد روشن ہوتی ہے، اہل ایمان  کے ساتھ بھی اسی طرح ہوتا ہے ۔ جس کے دل میں ایمان کی بشاشت داخل ہوتی ہے، اور جو اس کی حلاوت سے روشناس ہوتاہے وہ ببانگ دہل  اس کا اقرار کرتا ہے۔ جس کا اظہار اللہ تعالیٰ نے یوں کیا: ﴿ولما رأی المؤمنون الاحزاب قالوا هذا ما وعدنا الله ورسوله﴾ الخ...(الأحزاب:22)  ” یعنی جب ایمان والوں نے کفار کے لشکروں کو دیکھا تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھے: کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺنے  ہم سے اسی کا وعدہ کیا تھا۔ اور اللہ اور اس کے رسول  ﷺنے سچ فرمایا ۔اور اس چیز نے ان کے ایمان میں مزید شیوہ فرمانبرداری کا اضافہ کردیا۔
مؤمنین جب بھی آیات بینات ( واضح آیات ) کو دیکھتے ہیں تو یقین و ایمان ان کے سینوں میں جوش مارنے لگتاہے۔ فرمان باری تعالی ہے: ﴿ الذین آمنوا فزادتهم ایمانا وهم یستبشرون﴾ (التوبة:124) کیونکہ جو شخص اسہال کا شکار ہوگا وہ جتنا ہی کھائے گا اتناہی زیادہ اسہال ہوگا۔ خواہ وہ کھانا کتنا ہی عمدہ اور لذیذ کیوں نہ ہو، اس لئے کہ بگاڑ اس کے پیٹ میں ہے۔کھانے میں کوئی خرابی و بگاڑ نہیں ہے۔  اگر پیٹ میں بگاڑ نہ ہو تو وہی کھانا اس کے لئے  مفید و قوت بخش ہوگا۔
ایمان زبردست پروپیگنڈوں سے بھی متاثر نہیں ہوتا ہے۔ اور فضائی منافع اور فحش مطبوعات نیز وسائل اعلام میں سے جن کا تعلق سننے یاد دیکھنے سے ہے ، جنہیں آج دشمنان اسلام دن و رات پھیلارہے ہیں، یہ تمام چیزیں ایمان کو خوف و دہشت میں مبتلا  نہیں کرسکتی ہیں۔  بلکہ ایمان ان تمام فتنوں کے علی الرغم اپنے پیر پر کھڑارہے گا ۔ اور اپنا مؤ ثر رول ادا کرتا رہے گا۔  جیساکہ ہمارے اسلاف کا ایمان کرتا رہا۔ قرآن کہتا ہے: ﴿الذین قال لهم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوهم فزادهم ایمانا وقالوا حسبنا الله ونعم الوکیل﴾ (آل عمران:173) ”وہ لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے پر لشکر جمع کرلئے ہیں، تم ان سے خوف کھاؤ  تو اس بات نے ان کے ایمان میں اضافہ کردیا اور وہ کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کار ساز ہے۔
آج وسائل اعلام و ذرائع ابلاغ امت مسلمہ کے أعصاب پر شبخون مار رہے ہیں تاکہ اس امت کا حوصلہ پست ہوجائے۔ اور احساس کمتری کی شکار ہوجائے۔  اور یہ امت دیگر تمام انسانوں کے قافلوں سے پچھڑ جائے۔ جس کے اندر نہ کوئی حمیت باقی رہے اور نہ ہی غیر ت ۔ نہ اس کے اندر جوش و جذبہ باقی رہے اور نہ ہی نشاط۔   نہ اس کے پاس عمل رہے اور نہ علم ۔ بلکہ ایک اچھوت امت بن کر رہ جائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امت اسلامیہ ایسی امت ہے کہ جب اس کا ایمان مضبوط اور یقین مستحکم ہوگا تو دشمنوں کے جدید و قدیم وسائل کی مجال نہیں ہوگی کہ امت اسلامیہ کی شبیہ کو بگاڑدے یا اس کے ایمانی رونق کو مٹادے ۔ اس بات میں ذرہ برابر شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ایمان ہی اس امت کا واحد ذریعہ ہے اس مقام بلند تک پہنچنے کا جس پر اس کے اسلاف متمکن تھے۔ اس وجہ سے امت اسلامیہ کو از سر نوع حقیقی ایمان کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ آج ہم اساس ایمان کو کھوچکے ہیں۔  ایمان و یقین کی حیثیت پٹرول اور بجلی کی سی ہے، جب یہ دونوں چیزیں مفقود ہوں گی تو زندگی کا چکہ جام ہو جائے گا۔ احکام و اوامر اپنی طاقت انہیں دونوں سے حاصل کرتے ہیں۔  ایمانی زندگی اور شرعی نظام کی بقاء انہیں دونوں سے جڑی ہوئی ہے۔  اگر ایمان نہ ہوتو  علماء ہوں یا مشائخ ، بادشاہ ہوں یا رعایا ہر گز عمدہ کارنامے انجام نہیں دے سکیں گے ،جن سے اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ ہمیشہ مزین رہی ہے، اس لئے آئیے ہم سب اپنے ایمان کی تجدید کریں تاکہ ہم اپنے اسلاف کی طرح اپنے مقام کو ہمدوش ثریاء کرسکیں۔
٭٭٭٭

۞۞۞
LIKE?& SHARE? it on Facebook

۞۞۞
مکمل تحریر >>

اسلام کے تئیں برادران وطن کا رویہ

علاء الدین ندوی.............مارچ 1999 ء
تمام آسمانی کتابوں میں صرف ایک ہی کتاب ہے جو اپنی اصلی شکل میں محفوظ و موجود ہے۔ تمام انبیاء کی سیرتوں میں صرف آخری پیغمبر محمدﷺ کی سیرت ہے جو سب سے زیادہ مستند اورقابل اعتبار ہے ۔ اس لئے تلاش حق کے خواہاں لوگوں کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ قرآن کی تعلیمات اور آخری پیغمبر کی سیرت کی طرف رجوع کریں ۔یہ دوچیزیں خالص سر چشمہ ہدایت ہیں،  اور بے آ میز شکل میں موجود ہیں۔ اس کائنات کا ذرہ ذرہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ اس کو بنانے والا ، چلا نے والا ایک اور صرف ایک ہے۔ اور اسی کا نام اللہ ہے ۔ وہی حاجت روا ہے، وہی مشکل کشا ہے،  اور وہی پالنہار ہے ۔اس لئے عبادت اور بندگی صرف اسی کی ہونی چاہئے۔ وہ اللہ ،جس نے ہر مخلوق کی جسمانی پرورش اور ساخت و پرداخت کا انتظام کیا ہے۔ اس نے روحانی اور اخلاقی تربیت کیلئے اپنے رسول بھیجے۔ اور ان پر اپنی کتاب اتاری ۔اور ان کے ذریعہ دنیا و آخرت میں کامیابی کا راستہ واضح اور روشن کیا۔ اور اسی راستہ کا نام اسلام ہے ۔جو بنی نوع انسان کی کامیابی اور ابدی سرخروئی کا ضامن ہے۔ اسلام کسی خاص گروہ یا فرقہ کے لئے نہیں آیا بلکہ یہ نوع انسان کا مذہب ودین ہے۔ اس لئے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہر فرد بشر خواہ اس کا تعلق کسی بھی گروہ یا مذہب سے ہو اسلام اور اس کی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کرتا پھر اسے اپنانے کی کو شش کرتا۔ لیکن اس کے بر عکس اسلام اور اس کی تعلیمات کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ اس کے رخ زیبا کو داغ دار بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کی صورت مسخ کی جارہی ہے ۔اس کی سنہری تاریخ کو غبار آلود کیا جارہا ہے۔ اور اس طرح عام لوگوں کو اسلام سے متنفر کیا جارہا ہے  جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کی دولت سے مالا مال ہونے کا راستہ مسدود ہوجاتا ہے جو انسان کیلئے بڑی محرومی کی بات ہے۔
مدتوں سے برادران وطن کی جانب سے یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے کہ سر زمین ہند میں اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ۔اور آج کے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کے آباء و اجداد ماضی میں مسلم حکمرانوں کے ظلم و تشدد یا لالچ دلانے کے نتیجہ میں مسلمان ہوگئے تھے۔یہ ایک ایسا پروپیگنڈہ ہے جو عام برادران وطن کے ذہنوں میں بار بار اسے دہرا کر بٹھایا جاتا رہا ہے ۔اور غیر مسلموں کی بڑی تعداد اس پر یقین کرتی آرہی ہے۔ اور عام غیر مسلم شہریوں کو اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی کہ اس الزام کی حقیقت پر غور کریں ، یا مسلم اہل علم و دانشور افراد سے مل کر حقیقت حال کا پتہ لگائیں ۔نیز مسلمانوں نے بھی اس جھوٹے الزام کی تردید عوامی سطح پر نہیں کی یہ اور بات ہے کہ علمی سطح پر کچھ تردید بیچ بیچ میں ہوتی رہی۔
پچھلے چند برسوں سے یہ مسلم مخالف پروپیگنڈا کچھ زیادہ ہی زور شور سے کیا جاتا رہا ۔اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔ مگر یہ یا اس قسم کی بات زیادہ تر مرلی منوہر جوشی ، اشوک سنگھل ، اومابھارتی اور انہی جیسے غیر سنجیدہ اور انہیں کے ہم پیالہ و ہم نوالہ لیڈروں کی زبان سے سنی جاتی رہی ،جس کا مسلمانوں نے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔ لیکن اب اس مضحکہ خیز الزام کی صدائے باز گشت پروفیسر راجندر سنگھ ( عرف راجو بھیا) جیسے ذمہ دار شخص کی زبان سے بھی سنائی دینے لگی ہے۔ انتہائی حیرت کی بات ہے ایک پڑھا لکھا شخص اس قدر گھٹیا و بے بنیاد بات کیسے کہہ دیتا ہے؟  کیا عقل و خرد اور علم کا یہی تقاضہ ہے کہ ایک بے بنیاد بات کو بغیر سوچے سمجھے بیان کر دیاجائے؟ سچی بات تو یہ ہے کہ عقل و خرد اور علم اس قسم کی بات کے مخالف ہے لیکن کبھی تعصب و دشمنی پڑھے لکھے کو اندھا بنادیتی ہے۔
پروفیسر صاحب آرایس آیس کے سب سے بڑے لیڈر ہیں ، پڑھے لکھے بھی ہیں سینئر بھی۔ لیکن جناب نے اپنی شخصیت اور مقام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گذشتہ پانچ جنوری کو مہاراشٹر کے شہر آکولہ میں منعقد ایک تقریب میں اپنے ماتحت سر پھرے اور غیر سنجیدہ لیڈر وں کی اسی بے بنیاد بات کو دہرایا اور انہوں نے یہ تک بھی نہ سوچاکہ محفل میں پڑھے لکھے اور سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد بھی ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ پروفیسر صاحب کے دماغ میں یہ بات رہی ہو کہ غور وفکر کون کرتاہے؟کس کو اتنی فرصت کہ وہ اس بات کی تحقیق کرتا پھرے گا؟ اور تاریخ کی ورق گردانی کرکے حقیقت کا پتہ لگائے گا؟  ویسے یہ خیال تو غیر مسلموں میں اتنا عام ہے کہ لوگ سن لیتے ہیں اور یقین کرلیتے ہیں یا کم از کم خاموش رہ جاتے ہیں۔ اسی بنا پر موصوف نے بلا کسی تردد کے اسلام کے سلسلہ میں یہ بات کہی ہوگی۔ لیکن کیا ان جیسے پڑھے لکھے لوگوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ بلا دلیل کسی بھی موقع سے کوئی بھی بات کہہ دے ؟ اگر ماضی کے لوگ اپنی مرضی کے خلاف جبروتشدد ، ظلم و ستم، یا لالچ کی بنا پر مسلمان ہوئے تھے، تو کیا وجہ ہے آج بھی ان کی اولاد کروڑوں کی تعداد میں اسی دین سے چمٹی ہوئی ہے؟ آج ان کے لئے کون سی مجبوری ہے؟ان کے سروں پر آج کون سی تلوار اٹھی ہوئی ہے؟ بلکہ اس کے برخلاف اس دین سے وابستگی کی وجہ سے ان کو جبروتشدد اور ظلم و ستم کا سامنا ہے۔ آئے دن نت نئی مشکلات سے دوچار ہوتے رہتے ہیں ۔اور ان کو یہ احساس بھی دلایا جاتا ہے کہ یہ ساری مشکلات و پریشانیاں دین اسلام پر جمے رہنے کے نتیجہ میں ہیں۔ اگر وہ اس دین کو چھوڑدیں تو ساری پریشانیاں کافور ہوجائیں گی۔ مگر ان سب کے باوجود وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے ۔ کیا یہ صورت حال راجو بھیا اور ان کے ہم نواؤوں کی جانب سے اسلام پر لگائے جارہے الزام کے سفید جھوٹ ہونے کی تصدیق نہیں کرتی؟
اسلام ہماری یا کسی کی بھی ذاتی میراث نہیں ہے۔ بلکہ یہ تمام اولاد آدم کا مشترکہ سرمایہ حیات ہے جو کائنات کی فلاح ،کامیابی و کامرانی کیلئے خالق کائنات کے بتائے ہوئے اصولوں پر مشتمل ہے۔ اسی میں دنیا کے تمام مسائل کا حل ہے۔ اور اسی پر آخرت کی زندگی کی نجات منحصر ہے۔ اس لئے وہ ہر انسان کی ضرورت ہے۔ ہر انسان کو ٹھنڈے دل سے اس کی تعلیمات پر غور کر نے کی ضرورت ہے۔ تاکہ اسلام کی لازوال میراث میں اسے حصہ مل سکے۔ اور اپنی پیشانی کو معبودان باطلہ اور سیکڑوں دیوی و دیوتاؤں کے سامنے رگڑنے سے بچ جائے ۔جس میں وقت اور مال کی ضیاع کے سوا کچھ بھی  حاصل نہیں ہوتا۔
جس کا ذکر سابق سطور میں کیا گیا صرف یہی ایک الزام اسلام پر نہیں لگایا جارہا ہے بلکہ اسی طرح کے دسیوں الزامات ہیں جو براد ران وطن کی جانب سے لگائے جاتے ہیں جن کا مقصد دینی کم اور سیاسی زیادہ ہوتاہے۔
ہماری کوتاہی
انگریزوں کے زمانے کے غلام ہندوستان میں اور اس کے بعد آزاد ہندوستان کی نصف صدی کی مدت میں مسلمانوں کی محرومی و مظلومی کی داستان یکساں رہی ہے۔ ( بے شمار شہیدوں کے خون سے لالہ زار ہوئے فسادات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ) اگر مسلمانوں نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہوتی اور توحید ، رسالت اور آخرت کی دعوت لے کر اٹھ کھڑے ہوتے تو صورت حال یہ نہ ہوتی ۔ نہ اسلام کے خلاف الزام تراشی ہوتی اور نہ ہی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی۔ لیکن افسوس کہ ہم مسلمان خود غفلت و کاہلی کا شکار ہیں۔ ہم اسکولوں ، کالجوں ، آفسوں اور دکانوں نیز تجارتی معاملوں اور کھیل کود کے میدانوں میں برادران وطن سے ملتے رہتے ہیں ۔ دوستانہ ماحول میں باتیں کرتے رہتے ہیں۔ اور بہت سے معاملوں میں باہم گفتگو کرتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر مشورہ لیتے اور دیتے ہیں، لیکن ان کو ہم اپنے دین سے متعارف نہ کراسکے۔  اسلام کا تعارف پیش نہ کرسکے۔ اور اسکی حقانیت واضح نہ کرسک۔  حالانکہ امت مسلمہ کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج برادران وطن کی جانب سے اسلام کے خلاف بدگمانیاں پھیلائی جارہی ہیں ۔اور اس کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مسلمانوں نے اگر فریضۂ  دعوت کو اپنی زبان اور اخلاق و کردار کے ذریعہ ادا کیا ہوتا تو صورت حال یقینا مختلف ہوتی ۔ ہمارا اسلام لاکھ صحیح ہو، اس کے اندر کتنی ہی خوبی کیوں نہ ہو اور اس کی خوشبو دنیا کو معطر کرنے کی صلاحیت خواہ کتنی رکھے ،اور اس کی ضیا پاش روشنی میں دنیا کو منور کرنے کی طاقت خواہ کتنی ہی تگڑی کیوں نہ ہو ، اگر ہم نے اس کو بند کوٹھیوں میں بند کررکھا ہے اور مساجد و مدارس یا اپنے گھروں تک محدود رکھا ہے تو گرد وپیش میں اس کی مہک کیسے پھیلے گی ؟ اور اس کی روشنی دنیا کو منور کیسے کرے گی ؟ سچی بات تو یہ ہے کہ اسلام پر آئے دن لگنے والے الزامات کیلئے ماحول تیار کرنے میں ہمارا حصہ بھی کم نہیں ہے۔ ہم نے جہاں دعوت دین کو فراموش کرکے اپنے خلاف ماحول بننے کا موقع فراہم کیا ،وہیں اپنے غلط کردار اسلام سوز، دین سوز اور اخلاق سوز رول ادا کرکے غیر وں کو اسلام سے بد ظن کیا اور اسلام کی بد نما تصویر پیش کی۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم میں کا ہر شخص نہیں تو قابل ذکر تعداد نے اگر دعوت الی اللہ کے فرض منصبی کو ادا کیا ہوتا، اور غیر مسلموں میں اسلام کے تعارف کا بیڑ ا اٹھایا ہوتا تو ممکن نہیں تھا کہ بڑی تعداد میں ایسی سعید روحیں نہ مل جاتیں جو اس پیغام حق پر لبیک کہنے پر آمادہ ہوتیں اور اس ملک میں اسلام کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں کمی آتی۔ لیکن ہماری مسلسل کوتاہی نے ایک طرف ہمیں اللہ کی مہربانی اور شفقت و نصرت سے محروم کیا اور دوسری طرف برادران وطن کی نگاہوں میں ذلیل و خوار کیا۔
جب بھی مسلمانوں نے فریضۂ دعوت کی ادائیگی میں غفلت برتی اس کا خمیازہ انہیں بربادی کی شکل میں اٹھانا پڑا ۔ان کا وجود تک وہاں سے مٹ گیا اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت اندلس کی تاریخ ہے ۔ جہاں مسلمانوں کے بڑے بڑے علماء و فضلاء تھے ۔ اور وہاں ادباء و اہل دانش کی فراوانی تھی۔ اہل حل و عقد کی کوئی کمی نہیں تھی۔  وہاں پر اسلامی تہذیب و ثقافت اوج کمال کو پہونچی ہوئی تھی ۔ الغرض وہاں سب کچھ تھا لیکن مقامی آبادی تک دعوت دین پہنچانے کا کام بند تھا۔ جس کا نتیجہ کیا ہوا وہ سب کو معلوم ہے۔
اللہ سے دعاء ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو دعوت دین عام کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اسلام کی صحیح نمائندگی کرنے کی توفیق اور جذبہ دونوں عطاء فرمائے۔ .......(آمین)
٭٭٭٭٭


۞۞۞
LIKE& SHARE it on Facebook

۞۞۞
آپ کی رائے  جان کر ہمیں خوشی ہوگی

مکمل تحریر >>